Wednesday, August 25, 2010

ٹائیگر ۔ بچپن کا زندہ کھلونا

یہ اس وقت کی بات ہے جب میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ کراچی شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے منتقل ہوئے سال بھر  گزرا تھا یا پھر اس سے بھی کم۔ بہت سی نئی باتیں تھیں جو تقریبا روز ہی سیکھ رہا تھا۔ دراصل پرانے گھر کے گردونواح کے لحاظ سے ہمیں باہر کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ سو بس نئے گھر میں یہ آسائش خوب ملی اور ہم چار میں سے تین بھائی جب موقع ملتا راہِ فرار اختیار کرتے اور گلی میں کھیلنے آجاتے جہاں ہماراساتھ دینے کو محلے کی بچہ پارٹی پہلے سے موجود ہوتی- تین بھائی اس لیے کہ ارسلان اس وقت بمشکل دوسال کا تھا۔
نئے محلے کی گلی میں کرکٹ، ہاکی، فٹبال سے لیکر لٹو اور گلّی ڈنڈا تک سبھی کچھ کھیلا۔ برف پانی، آنکھ مچولی، رنگوں میں رنگ ، پٹھّو گرم حتٰی کہ لڑکیوں سے منسوب کھیل کھو کھو بھی خوب کھیلا۔
ایک جانور پالنے کی کمی تھی وہ دو گھر کے فاصلے پہ رہنے والوں کے پلے ہوئے کتّے نے پوری کردی۔ ٹائیگر، ایک آوارہ پلا تھا جسے اس گھر کے افراد نے پال کر پالتو بنا لیا تھا۔ 
یہ ٹائیگر کی کہانی ہے جس میں "ٹائیگر کی ماں موتی"، اس کی بہن "لینڈی"، اس کا باپ "گیسو"، گیسو کی دوسری بیوی،ٹائیگر کے مرنے کا موجب "لوسی"، ٹائیگر کے دشمن کتے اورٹائیگر کی ایک اور بہن(جس کا نام اس کے مرنے کے بعد بھی میں آج تک نہیں رکھ پایا) ، شامل ہیں۔ 
ٹائیگر کے بارے میں ، مجھے محلے میں ہم سے پہلے رہنے والے دوستوں اور بعد میں خاص طور سے مدرسے میں ساتھ پڑھنے والے ایک لڑکے آصف سے تب پتہ چلا جب وہ پہلی بار مدرسے سے واپسی پر مجھے وہاں لے گیا جہاں موتی نےٹائیگر کے مزید نو بہن بھائیوں کو جنم دیا تھا۔موتی آصف سے بیحد مانوس تھی۔ خیر ٹائیگر اور لینڈی موتی کے بچوں میں سب سے بڑے اور جوڑا بنانے کے قابل تھے مگر دونوں اکیلے رہتے تھے۔ موتی اور لینڈی کے شب و روز تو سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر بسر ہوتے تھے جبکہ ٹائیگر اس گھر کے باہر پڑا رہتا۔ ٹائیگر کے دن اور رات میں ہم بچے بھی شامل تھے جو اسے وقت بے وقت آواز دے کے بلاتے اور وہ دوڑتا چلا آتا بیحد چستی اور پھرتی کے ساتھ- کیوں کے وہ جانتا تھا کہ ہم اسے دوسرے آوارہ کتوں سے لڑوانے کے لیےلے جانا چاہتے ہیں-
سو بچوں کی وہ ٹولی، ٹائیگر اور راستے میں موتی یا لینڈی مل جائے تو وہ بھی لڑائی کے لیے دیگر کتوں کی تلاش میں نکل پڑتے اور جہاں دیگر کتے نظر آتے ہمارا اشارہ پاتے ہی ٹائیگر ، لینڈی اور موتی ان کی ایسی تیسی کر دیتے- جب ٹائیگر اکیلا ہوتا تو اس کی دیدہ دلیری دیدنی ہوتی تھی- اس لڑائی سے ایک فائدہ یہ تو ضرور تھا کہ دوسرے آوارہ کتے ہمارے محلے سے دور رہتے سوائے گیسو کے - وہ جب بھی آتا ہم ٹائیگر کو اس کی طرف لپکنے کو کہتے بھی تب بھی ٹائیگر دل سے نہ لپکتا اور جواب میں گیسو اس کی پٹائی کردیتا- اس بار بار کے معمول سے ہم بچوں نے یہی اخذ کیا کہ ہو نہ ہو ٹائیگر گیسو کا بیٹا ہے- 
موتی سے الگ رہنے والا گیسو علاقے سے باہر ویرانے میں اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہتا تھا- موتی بھی ہمیشہ گیسو کے سامنے دبکی سی رہتی-  خیر ٹائیگر کو ہم بارش میں تو خوب گھومایا کرتے تھے بغیر کسی سے لڑوائے- بارش کی دھن میں یہ اتنا مزے کا کام نہیں لگتا تھا نہ ہمیں نہ ٹائیگر کو!  
ٹائیگر کے ساتھ یوں وقت گزرتاجارہا تھا موتی کے ہاں کچھ اور بچے پیدا ہوئے انہیں میں سے ایک ٹائیگر کی وہ بہن بھی تھی جس کا میں نام نہیں رکھ پایا۔  (جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

5 تاثرات:

بلاامتیاز نے کہا

ہاہا جناب
لیکن ہم تو اس معاملے میں اپ سے مختلف تھے بہت ہم اپنے محلے میں کسی کتے کو نہیں آنے دیتے تھے
اور اگر کوئی بیچارہ غلطی سے آ بھی جاتا تو ہم اس کو چاروں طرف سے گھیر کر ایسی درگت بناتے تھے کہ کتوں نے ہمارے محلے کا رخ کرنا ہی چھّوڑ دیا تھآ
اور ہاں گیسو اور ٹآئیگر کا ڈی-ایں-اے ٹیسٹ کروالیں تاکہ اپ کی پیارے ٹآئیگر
کا ولدیت کا خانہ پر کیا جا سکے

Muhammad Tanveer Khan نے کہا

Yeh perh k tu mujhe woh tiger yaad agaya jo safoora goth main agaya tha ;)

خاقان شاطی نے کہا

تنویر
ہاہاہا
یار کیا یاد دلا دیا

Muhammad Tanveer Khan نے کہا

Yaar khaqan bhai aap yaqeen nahi kerte yaar ;)

Anonymous نے کہا

agaye ki kahani kab arhi hai ??

آپ کی رائے/تاثرات