Monday, August 30, 2010

دکھ کی وادی سے

بہت دکھ ہوتا ہے جب اپنے دکھ دیں۔ دکھ نام کے لفظ میں وہ کیفیت وہ صلاحیت ہی نہیں کہ اپنوں کے دئیے دکھ کو بیان کر سکے - اپنوں کے دئیے زخم عمر بھر رستے رہتے ہیں اور ایسا ناسور بن جاتے ہیں کہ نہ ساتھ رکھا جا سکتا ہے نہ کاٹ کے الگ کر سکتے ہیں۔
محبت کو نفرت میں بدلنے میں اتنا کم وقت درکار ہو میں نے اپنی زندگی میں کم ہی دیکھا ہے۔ دوست منہ پھیر لیں تو بہر حال دل کو چین آ جاتا ہے پر وہ جن سے خون کا رشتہ ہو وہ سب بھلا کر دور ہو جائیں، اُسی بے رخی کے ساتھ زخم بھی دیں اور پھر بھرنے سے پہلے اُسے کریدنے لگ جائیں تو دل چین پانا ہی نہیں چاہتا-

مسئلہ صرف اتنا ہے کہ انا کی زمین سے جنم لینے والے نظریات اور سوچنے کے انداز کا فرق ہمیں فرق فرق کر ڈالتا ہے۔ اپنا اپنا نہیں رہتا- باپ کے مقابل بیٹا کھڑا ہو جاتا ہے اور بھائی بھائی سے دست و گریباں ہونے لگتا ہے  چھوٹے چھوٹے دنیاوی معاملات جو مل بیٹھ کے حل ہو سکتے ہیں غیر ضروری اناؤں کا پاس رکھنے کی خاطر اپنے  حل سے محروم رہتے ہیں اور نئے مسائل جنم لیتے ہیں- مگر کبھی کبھی ایک طرف سے جھکاؤ ہو بھی  تو انا کا ستون دوسری طرف اتنا مضبوط کر دیا جاتا ہے کہ مسائل کی عمارت گر نہیں پاتی اور رشتوں کی ڈور کچی پڑ جاتی ہے۔

2 تاثرات:

Anonymous نے کہا

hmmm yup u r ryte ... :))

بلاامتیاز نے کہا

بہت خوب ۔
لیکن جناب آپ کہاں غائب ہیں آجکل۔۔۔

آپ کی رائے/تاثرات