Monday, August 15, 2011

محبت ہار کے بھی جیت لیتی ہے

 تم بدل گئے ہو۔اب ہمارےدرمیان وہ پہلے سی محبت نہیں رہی!اب تم میری چھوٹی چھوٹی باتوں پرخفا ہوجاتےہو۔پہلے یہی باتیں تمہیں عزیز ہوا کرتی تھیں۔اب دل سے توجہ سے میری بات بھی نہیں سنتے!بیزار ہوگئےہومجھ سے؟بہتر ہوگا کہ ہم کچھ وقت دیں ایک دوسرے کو، جب ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی توقعات کے مطابق ڈھال لیں گے تب ہی بات کریں گے!
وہ یہ کہتی جارہی تھی اور اس کی آنکھ سے حرف حرف آنسو بن کے گر رہا تھا اور دل لہو لہو ہوتاجاتا تھا۔
دو محبت کرنے والے جدا ہونے کے تصور سے گھبراتے ہیں، پھر اس قربت میں کیسے اُس نے یہ سوچ لیاکہ وہ ایک دوسرے سے کچھ وقت کے لئے دور ہو جائیں!
دوسری طرف آنکھ میں آنسو نہ تھےپر دل ضرور رو رہا تھا مگر صنفِ نازک کو رب نے بنایا ہی اس نازکی کے ساتھ ہےکہ اس کاایک آنسو مردِدردمند کے سارےکرب پر بھاری رہتا ہے!
وہ اپنی نازنین کو سمجھانے لگا، اُسے یقین دلانے لگا کہ کچھ نہیں بدلا، وقتی ناراضگی محبت کو کم نہیں کر دیتی!
جیسے خشک سالی آئے تو دریا سوکھ جاتا ہے پر دریا دریا ہی رہتا ہے۔
کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا!
وہ کہتا چلاگیا،اپنے دل کا حال کھول کر سامنے رکھ دیا کہ محبوب محب میں دلوں کا پردہ کہاں ہوتا ہے۔
میں نے مانا میں تم سے ناراض ہوا پر میں نے بات بھلادی ۔ مانا میں پہلے یوں ناراض نہیں ہوتاتھا۔
پر ہو بھی جاؤں تو دوجے لمحے بھول بھی تو جاتا ہوں! مگر کبھی کبھی محبت میں یہ خبر نہیں ہو پاتی کہ کہنا بہتر ہے یا نہ کہنا ۔
وہ چپ ہوگیاکہ کہنے میں شاید وہ تاثیر نہیں تھی۔ یا دوسری جانب اب دل  پہلے سا جاذب نہیں رہا تھا۔ شاید واقعی کچھ بدل گیا تھا۔ اُس کے دل سے کہیں سے صدا آئی کہ کاش لکھنے والے نےیہ بھی لکھا ہوتا۔
تیرے میرے درمیاں ، رواں جو بدلاؤ ہے
جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
مگر شاید بدلاؤ محبت میں قابلِ قبول ہی نہیں۔ پر محبت کسی ٹھہرے ہوئےدریاکا تو نام نہیں، نہ دریا بذات خود ٹھہرئے رہنے کا نام ہے۔ دریا تو بہتا ہے ، پانی ایک سا نہیں رہتاہے۔
سو محبت کے سفر میں کہیں کوئی بدلاؤآبھی جائے تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ محبت نہیں رہی۔
محبت کا رنگ ، لہجہ بدل جائےتو رنگ بدلا ، لہجہ بدلا محبت تو نہیں بدلی۔ اور شکوہ بھی محبت کی زباں ہے۔ محبت کا دامن اتنا تنگ نہیں کہ اس میں شکوہ سما نہ سکے۔
وہ رونے لگاتھا۔ سو اب دونوں رو رہے تھے اچانک ایک دوسرے کے آنسو پونچھنےلگے ، زخم بھرنے لگے، آنسوؤں کے درمیاں مسکراہٹ پھوٹ رہی تھی۔
پر دونوں کےدل سوچ رہے تھے کہ ناراضگی نہ ہوئی ہوتی تو محبت کی یہ شدت ، یہ منزل وہ کیسے دیکھتے۔
سو کون جھٹلائے کہ محبت ہار کے بھی جیت لیتی ہے!   

Sunday, July 17, 2011

اعتبار اور دوسرا موقع

(رشتہ قائم رکھنے کی اساس-دوست سن اعتبار ہوتاہے(شاطیؔ

کیا بہت مشکل ہے اعتبار کرنا؟کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنوں کو دوسرا موقع دیں ؟وہ کیا ہے جو ہمیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ کیوں میرے یہ سوال تلخ محسوس ہوتے ہیں؟ کیوں ان سوالوں کے جواب میں زبان گنگ ہوجاتی ہے؟
میں کیسے اعتبار کروں تمہارا۔دنیا میں اب کوئی کسی کا نہیں رہا،سب کو اپنی پڑی ہے۔یہاں سب کچھ غرض سے جوڑا ہے۔ یہ دنیا خود غرض لوگوں کا گھر ہے۔ تم بھی تو اس دنیا کا حصہ ہو کیسے اعتبار کروں تمہارا؟
۔کیوں میرا اعتبار نہیں ،مجھے بھی تو تم پر اعتبار ہے۔باوجود اس کے کہ تم بھی اس دنیا کا حصہ ہو!اورتم تواس کی خودغرضی سے بھی واقف ہو!!ِ
دوسراموقع؟کیسی بات کرتے ہو!اتنا آسان لگتا ہے تمہیں،جو تکلیف تم نے مجھے دی ہے وہ بھلائے نہیں بھولتی۔ میں تمہیں دوسراموقع نہیں دے سکتا!!
۔کیوں نہیں دے سکتے؟معاف تو خدابھی کر دیتا ہے،ایک نہیں بےشمار موقع دیتا ہے!
نہیں میں غلط ہوں۔تم یہ کیسے کر سکتے ہو! تم تو انسان ہو خداتو نہیں۔ اچھا سنو غلطی ہو تو انسان سزا دیتے ہیں،چلو سزا دے لو۔پر ہاں سزا دیتے ہوئے انصاف کرنا!مگر یہ تو بتاؤ تم انصاف کر پاؤ گے؟
۔ کیوں میرے یہ سوال تلخ محسوس ہوتے ہیں؟ کیوں ان سوالوں کے جواب میں زبان گنگ ہوجاتی ہے؟

Thursday, July 14, 2011

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

دیر آید درست آید کے پہلے حصےپر تو میں پورااترا،   دوسرے کے بارے میں فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔اس دیر کا باعث  کچھ یوں ہے۔تعلیمی سلسلے کی چند مزید منزلیں طے کرنا مقصود تھیں سو دیارِغیر آنا پڑا۔ خیر یہ تحریر اُن بھلے مانس لوگوں کے نام کہ جو ربط سے ربط بناتے ایک بار اس بلاگ پر آئے اور ٹائیگر کی کہانی کے دوسرے حصے کے لئے آتے جاتے رہے۔اْن تمام مہربانوں کا میں تہہِ دل سے شکرگذار ہوں۔مزید "ماورائی فیڈر" کا بے حد ممنون ہوں کہ تحاریر کی تعداد کم اور غیر حاضری کے باوجود بلاگ فیڈ میں اس بلاگ کو شامل رکھا۔ جناب بلا امتیاز صاحب کا احسان مند ہوں کہ جو اردو بلاگ کے اوالین دنوں میں بطور استاد ساتھ رہے ۔ اور کچھ ماہ پہلے پھر سے لکھنے کی دعوت بھی بہت محبت سے میری نظر کر کے میرے واپس آنے کے انتظار میں مصروف ہو گئے۔ خیر اب سے کوشش رہے گی کہ بلاگ پر تحریریں تسلسل اور تواتر سے آتی رہیں۔تاکہ ذاتی ذوق بھی برقرار رہے اور قارئین کا شوق بھی۔ساتھ ہی تحریر کے موضوع نے اجازت دی تو اپنی شاعری بھی اس بلاگ کا حصہ بناؤں گا۔بہرحال بلاگ کی بنیاد نثر ہی رہے گی۔.جاتے جاتے اپنی غزل کے ایک شعر سے لکھاریوں کی ترجمانی کرتا چلوں۔
قلم نے لکھا توانکشاف ہوا
قلم تو رازدار ہوتا ہے۔
(شاطیؔ)
اگلی تحریر تک اجازت ۔فی امان ِاللّٰہ