Sunday, July 17, 2011

اعتبار اور دوسرا موقع

(رشتہ قائم رکھنے کی اساس-دوست سن اعتبار ہوتاہے(شاطیؔ

کیا بہت مشکل ہے اعتبار کرنا؟کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنوں کو دوسرا موقع دیں ؟وہ کیا ہے جو ہمیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ کیوں میرے یہ سوال تلخ محسوس ہوتے ہیں؟ کیوں ان سوالوں کے جواب میں زبان گنگ ہوجاتی ہے؟
میں کیسے اعتبار کروں تمہارا۔دنیا میں اب کوئی کسی کا نہیں رہا،سب کو اپنی پڑی ہے۔یہاں سب کچھ غرض سے جوڑا ہے۔ یہ دنیا خود غرض لوگوں کا گھر ہے۔ تم بھی تو اس دنیا کا حصہ ہو کیسے اعتبار کروں تمہارا؟
۔کیوں میرا اعتبار نہیں ،مجھے بھی تو تم پر اعتبار ہے۔باوجود اس کے کہ تم بھی اس دنیا کا حصہ ہو!اورتم تواس کی خودغرضی سے بھی واقف ہو!!ِ
دوسراموقع؟کیسی بات کرتے ہو!اتنا آسان لگتا ہے تمہیں،جو تکلیف تم نے مجھے دی ہے وہ بھلائے نہیں بھولتی۔ میں تمہیں دوسراموقع نہیں دے سکتا!!
۔کیوں نہیں دے سکتے؟معاف تو خدابھی کر دیتا ہے،ایک نہیں بےشمار موقع دیتا ہے!
نہیں میں غلط ہوں۔تم یہ کیسے کر سکتے ہو! تم تو انسان ہو خداتو نہیں۔ اچھا سنو غلطی ہو تو انسان سزا دیتے ہیں،چلو سزا دے لو۔پر ہاں سزا دیتے ہوئے انصاف کرنا!مگر یہ تو بتاؤ تم انصاف کر پاؤ گے؟
۔ کیوں میرے یہ سوال تلخ محسوس ہوتے ہیں؟ کیوں ان سوالوں کے جواب میں زبان گنگ ہوجاتی ہے؟

2 تاثرات:

بلاامتیاز نے کہا

جب رشتوں میں ان آ جائے ۔
یا رشتے بے لوث نہ رہیں تو پھر ایسی باتیں سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔

خاقان شاطی نے کہا

خدا رشتوں کو اناؤں کے شر سے محفوظ رکھے آمین

آپ کی رائے/تاثرات